چاند کی  رات  میں زندہ رہنا

خلا کے بارے میں سوچتے ہی، چاند   پر چہل قدمی کرنے والے نیل آرمسٹرانگ اور بز ایلڈرین کی تصاویر   ذہن میں آ جاتی  ہیں—یہ انسان کے لیے ایک چھوٹا قدم  لیکن،  بنی نوع انسان کے لیے ایک بڑی چھلانگ تھی۔

چاند نظام شمسی میں ہمارا سب سے قریب ترین فلکیاتی جسم ہے۔چاند آج کی طرح پہلے بھی بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ ہمارا واحد قدرتی سیٹلائٹ ہے، اور مستقل  رہائش  کے لیے  انسان کا  اگلا منطقی قدم ہے۔

چاند کی  رات  چاند کے  مشن کے لیے ایک  بہت بڑا چیلنج ہے۔

کیونکہ چاند کی ایک گردش   تقریباً ساڑھے انتیس  دن   کی ہوتی  ہے۔گویا چاند کا ایک دن زمین کے ساڑھے انتیس دن کے برابر ہے۔چاند پر  رات اس وقت ہوتی ہے جب، چاند کی سطح سورج کے سامنے نہیں  ہوتی۔چاند کی ایک   رات، زمین کے  تقریباً 14 دن  کے برابر  ہوتی  ہے۔ چاند کا ایک ہی رخ ہمیشہ زمین کا سامنا کرتا ہے۔ چاند کا وہ رخ جو ہمیشہ زمین کی طرف ہوتا ہے اسے قریب کی طرف کہا جاتا ہے۔ چاند کا وہ رخ جو ہمیشہ زمین سے دور ہوتا ہے اسے، دور کی طرف کہا جاتا ہے۔ اندھیرے اور روشنی کی  اطراف کے برعکس، قریب اور دور کے اطراف مستقل ہیں۔ زمین سے، لوگوں نے صرف چاند کے قریب والی طرف  ہی دیکھی ہے۔ چاند کی دور کی سائیڈ زمین سے نظر نہیں آتی، یہ صرف خلائی جہازوں کے ذریعے ہی دیکھی جا سکتی ہے ۔

زمین کے چودہ دن   کے برابر کی ، چاند کی  طویل رات  میں،  درجہ حرارت میں تیزی سے کمی واقع ہوتی ہے، تقریباً منفی 280 ڈگری فارن ہائیٹ  یعنی کہ  تقریبا ً  منفی 137 ڈگری سینٹی گریڈ تک ۔جس سے  ایک ناقابل یقین حد تک شدید  سخت  انوائرنمنٹ پیدا ہوتا ہے۔ اس قدر ٹھنڈا  درجہ حرارت،     ہر چیز کو یخ کر کے جام کر دیتا ہے  اور، زیادہ تر  آلات کی صلاحیتیں  تباہ ہو جاتی ہیں۔

چاند پر طویل مدتی مشن کو مکمل  کرنے کے لیے، قمری رات کے دوران،  ہر قسم کے آلات کا  قابل عمل ہونا،  بنیادی  حیثیت رکھتا ہے۔شدید ترین ٹھنڈ کا مقابلہ کرنے کے لیے ، ریڈیوآئسوٹوپ پاور سسٹمز (آر پی ایس)  تیار کیے گئے ہیں جو، اس رکاوٹ کا آسانی سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔

ناسا   (نیشنل ایروناٹکس اینڈ سپیس ایڈمنسٹریشن )کے مطابق،  خلائی جہازوں کو طاقت دینے کے صرف دو ہی عملی اور ، قابل اعتماد طریقے ہیں،ایک سورج  کے ذریعے (شمسی توانائی)   گرمی حاصل کرنا ،  اور دوسرا،  جوہری ذرائع سے گرمی کا حصول۔

سولر پاور (شمسی توانائی )خلائی  مشنوں کے لیے، توانائی کا  ایک بہترین ذریعہ ہے۔   آر پی ایس  بنیادی طور پر، ایسی  جوہری بیٹریاں ہیں جو، حرارت کو برقی توانائی میں تبدیل   کرتی ہیں۔یہ    نظام شمسی میں گہرے اور سرد علاقوں کو، تلاش کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ یہ جوہری  بیٹریاں ساٹھ    سال سے زائد عرصہ  سے، خلائی تحقیق میں  ایک اہم کردار ادا  کر رہی  ہیں اور، آج بھی خلائی تحقیق کو توانائی فراہم کر  رہی  ہیں۔

ریڈیو آئیسوٹوپ پاور سسٹم میں، حرکت پذیر پُرزے نہیں ہوتے   جو، ٹیک آف یا دوبارہ داخلے کے دوران خراب  ہو سکیں۔ یہ راکٹ پروف ہوتے ہیں۔ امریکہ کے  انرجی ڈیپارٹمنٹ  اوک رج نیشنل لیبارٹری کے،  جوہری خلائی نظام کے انجینئر مائیکل اسمتھ  کے مطابق ، ناسا  ایڈوانس قسم کے آر پی ایس      کے، تجربات   کر رہا ہے  جنھیں،  زینو پاور سسٹم   جیسی کمپنیوں نے تیار کیا ہے۔ ان کے کچھ ڈیزائن، خرچ شدہ ایندھن سے ریڈیوآئسوٹوپس استعمال کرسکتے ہیں اور، دو ہفتوں سے لے کر  کئی سالوں تک،بغیر کسی خرابی کے باآسانی  چل سکتے ہیں۔

  اگلی نسل کے ان   آر پی ایس کا  استعمال   آنے والے چند سالوں میں متوقع ہے۔ یہ   ایسے آلات  ہیں جو، بغیر پائلٹ کے ابتدائی مشنز، زمینی سیٹلائٹ، اور دوسرے سیاروں مثلاً ،مریخ پر بھیجے جانے والے، مشنوں کو توانائی  فراہم  کرتےہیں۔

  یہ آر پی ایس انتہائی سرد درجہ حرارت کو برداشت کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، اس لیے وہ چاند کی طویل اور یخ  رات میں  بھی، سروائیو کر  سکتے ہیں۔ یہ   ریموٹ امیجنگ اور مواصلات کے لیے، ابتدائی مرحلے کے پاور سسٹم کے طور پر، استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

چاند  پر ایک مستقل بیس  قائم کرنے   میں، آر پی ایس  کی صلاحیت،  بہت زیادہ مددگار ہے کیونکہ، جغرافیائی سیاست میں تبدیلی  کی وجہ سے ، مختلف ممالک خلا میں،  اپنی مستقل موجودگی قائم کرنے کے  لیے، سبقت  حاصل کرنے  کے لیے  کوشاں ہیں۔

امریکن  کانگریس نے 2024 تک، بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کو 2028 تک کی  توسیع دینے کی اجازت دی تھی، لیکن آنے والے سالوں میں اسے ریٹائر ہونا پڑے گا۔ موجودہ دور میں خلا ،ایک اہم  جغرافیائی سیاسی مرکز  بنتا جا رہا  ہے، چین، روس اور یورپی خلائی ایجنسی سمیت بہت سے دوسرے  ممالک،      چاند پر اپنی  کالونی  بنانے میں  دلچسپی  رکھتے ہیں اور وہ ،اپنے ان خوابوں کی تعبیر کے لیے ، خلائی ریسرچ کے پروگرامز میں،  بے پناہ سرمایہ لگا رہے ہیں اور،  نت نئے تجربات کر رہے ہیں۔

ناسا فی الحال آرٹیمس پروگرام کے ساتھ چاند پر،  اپنی مستقل موجودگی کی تیاری کر رہا ہے  جو، خلائی تحقیق میں امریکی اجارہ داری کو برقرار رکھنے اور، عالمی اتحاد بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ مشن 2024 میں، چاند پر پہلی خاتون اور  کالے رنگ والے  پہلے شخص کو اتارنے اور، اپنا بیس کیمپ بنانے کے لیے، بین الاقوامی اور تجارتی شراکت داروں کے ساتھ، تعاون قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔

چاند  پر بیس کیمپ  کا قیام، نظام شمسی  کے مزید رازوں کو،  افشا کرنے  کے لیے ایک اہم قدم ثابت   ہو گا۔   یہ  سائنس کو  پہلے سے کہیں زیادہ ترقی دینے  کی  صلاحیت  میں اضافہ کرنے  اور،   ہمارے اپنے سیارے زمین  کے ساتھ ساتھ ، باقی  سیاروں اور  کائنات کے  بارے میں  ہمارے علم میں اضافہ   کا باعث بنے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے